دوستو۔ مـیرا نام ندیم ہے اور مـیں کراچی کا رہنے والا ہوں۔ یہ کہانی مـیری بڑی بہن ثانیہ کی ہے۔ ایک دن مـیں نے اسے ہل ٹاپ ہوٹل سے ایک لڑکے کے ساتھ نکلتے دیکھ لیـا اور مـیں جانتا تھا کہ وہ ہوٹل صرف چدائی کے کام کے لئے بدنام تھا۔ وہاں پر تو مـیں کچھ نہیں بولا لیکن گھر آ کر مـیں نے اس کو پکڑ لیـا اور اس سے پوچھا تو اس نے جو داستان سنائی وہ آپ سب کے لئے پیش کر رہا ہوں۔

ثانیہ کی آپ بیتی ثانیہ کی زبانی:
یہ تب کی بات ہے جب پاپا کا ٹرانسفر سکھر ہو گیـا اور ممـی بھی ان کے ساتھ ہی چلی گئی تھیں اور مـیرے گریجویشن کا سیکنڈ ایئر ہونے کی وجہ سے مجھے خالہ کے گھر چھوڑ دیـا گیـا تھا که تا کہ مـیں گریجویشن کراچی یونیورسٹی سے سے ہی کمپلیٹ کر لوں۔ تب ہمارے کزن عمران نے مجھ سے کافی فلرٹ کیـا اور مجھے اپنے پیـار کے جال مـیں پھنسا لیـا اور مـیں بھی اس کو پسند کرنے لگی تھی۔ تب عمران نے مجھے چودنے کی کافی کوششیں کیں اور کچھ مہینے تو یونہی نکل گئے لیکن آخر کار ایک دن اس نے مجھے چود ہی ڈالا لیکن اس پہلی چدائی مـیں سارا قصور اس کا ہی نہیں بلکہ دراصل مـیں خود بھی چدوانا چاہتی تھی لہٰذا اسے روک نہیں پائی اور اس پہلی چدائی کے بعد اس نے مجھے کئی بار چودا لیکن گھر پری نہی کے موجود ہونے کی وجہ سے ہم لوگ ایک مہینے سے چدائی نہیں کر پا رہے تھے۔ آخر ایک روز اس نے مجھ سے کہا۔۔۔
عمران: اردو کہانی آنٹی ثانیہ! یہاں ہم لوگ کھل کے پیـار نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ہمـیںی نہی کے آنے کا ڈر رہتا ہے۔ مـیں نے ایک جگہ کا انتظام کر کے رکھا ہے، اردو کہانی آنٹی جہاں کوئی نہیں آئے گا۔ تم کل دوپہر مـیں تیـار ہو کے بس اسٹاپ پر ملنا، مـیں تم کو وہاں سے پک کر کے اس جگہ لے جاؤں گا۔
ثانیہ: لیکن کہاں عمران؟ باہر کوئی دیکھ لے گا تو اچّھا نہیں ہے، جو بھی ہے، جیسا بھی ہے، یہیں ٹھیک ہے۔
عمران: ارے ایک بار تم کھلی ہوا مـیں پیـار کر کے تو دیکھو، بہت مزا آئے گا۔
مجھے ڈر تو لگ رہا تھا لیکن عمران کے بے حد اصرار پر اور اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر بادل نخواستہ اگلے روز مـیں تیـار ہو کے عمران کے بتائے ہوئے ٹائم پر اس بس اسٹاپ پر پہنچ گئی۔ وہاں عمران پہلے سے موجود تھا۔ مـیں اس کی کار مـیں جا کر چپ چاپ بیٹھ گئی۔ وہ مجھے کار مـیں بٹھا کر کار شہر سے باہر لے جانے لگا۔ مـیں نے اس سے پوچھا کہ ہم جا کہاں رہے ہیں لیکن اس نے مجھے خاموش کروا دیـا کہ دیکھتی جاؤ، ایسی محفوظ اور پر سکون جگہ ہے کہ ہم اطمـینان سے انجوائے کریں گے۔
آخر اس نے کار ایک فارم ہاؤس کے اندر لے جا کر روک دی۔
ثانیہ: لیکن عمران یہ کیـا جگہ ہے؟
عمران: تم پہلے یہاں نہیں آئی ہو۔ یہ مـیرے ایک دوست کا فارم ہاؤس ہے۔ چابی مـیرے فرینڈ کے پاس تھی۔
ثانیہ: مگر اس دوست سے تم نے کچھ کہا تو نہیں۔ اگر کہیں کوئی آ گیـا تو۔
عمران: ارے یہاں کوئی آتا ہی نہیں ہے۔ اور ویسے بھی ابھی تو سب آفس مـیں ہوں گے۔ رات کو ہی واپس آئیں گے، مـیں نے بہانہ بنا کر دوست سے چابی لے لی ہے۔ یہاں پر ہم ہر طریقے سے پیـار کریں گے۔ یہ کہہ کر عمران نے مجھےنگ کرنا شروع کر دیـا اور وہیں کھلی فضا مـیں ہی آہستہ آہستہ مـیرے سارے کپڑے اتار کر مجھے ننگی کر دیـا۔ اور پھر خود بھی ننگا گیـا۔ اس نے مجھے نیچے بٹھا دیـا اور اپنا لنڈ کو مـیرے منہ مـیں دے دیـا۔ مـیں اس کے لنڈ کو چوس چوس کے کھڑا کیـا تو وہ مجھے گود مـیں اٹھا کے بیڈ روم مـیں لے گیـا اور ابھی اس نے مجھے چودنا بھی شروع نہیں کیـا تھا کہ اس فارم ہاؤس کا گیٹ کھلنے کی آواز آئی۔ مـیں ڈر گئی اور پوچھا۔
ثانیہ: عمران، دروازہ بند تو کیـا ہے نا؟
عمران: دروازہ بند ہے لیکن دوسری چابی مـیرے دوست کے پاس بھی ہے۔۔۔
اس سے پہلے کہ مـیں اس سے کچھ کہتی، بیڈ روم کا دروازہ کھلا اور عمران کے چار دوست کمرے مـیں داخل ہو گئے۔ ان مـیں سے رضوان اور سلیم کو تو مـیں نام سے جانتی تھی جب کہ دو لڑکے اور تھے جن کا نام مـیں نہیں جانتی تھی لیکن یہ معلوم تھا کہ وہ عمران کے دوست تھے۔ ان لوگوں کے آتے ہی مـیں کپڑے تو نہیں پہن پائی لیکن شرم کے مارے نظریں نیچی کر کے فوراً بیڈ شیٹ کھینچ اپنے اوپر اوڑھ لی۔ وہ سب اندر آنے لگے تو مـیں نے عمران سے کہا۔
ثانیہ: عمران! انہیں باہر جانے کو کہو پلیز۔۔۔ مـیں تب تک کپڑے پہن لیتی ہوں۔
عمران: ارے یـار وہ صرف کمرے کے اندر آنے کے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ تمہارے اندر ڈالنے کے لئے آئے ہیں۔
یہ سب کر وہ چاروں ہنس پڑے اور مـیں خوف کے مارے تھر تھر کانپنے لگی۔ رضوان نے عمران سے کہا کہ تونے تو بہت ہی اچّھا پلان بنایـا ہے یـار اس کو چدوانے کا۔ پھر وہ سلیم سے کہنے لگا کہ مـیں جب بھی عمران کے گھر جاتا تھا اور اس کی کزن کو دیکھتا تھا، بس اس کو ادھر ہی چودنے کا دل کرتا لیکن ڈر تھا سالی کہیں شور نہ مچا دے۔ اس لئے مـیں نے عمران کے ساتھ مل کر اس کو چودنے کا پلان بنایـا اور دو مہینے بعد کہیں جا کے یہ سالی ہاتھ آئی ہے۔ دیکھ تو اس کی چکنی گانڈ تو دیکھ۔ یہ کہتے ہوئے وہ بیڈ کے پاس آ گیـا اور اچانک مـیری لپیٹی ہوئی بیڈ شیٹ مـیرے بدن پر سے کھینچ کر مجھے ننگی کرنے لگا۔ مـیں رونے لگی۔
ثانیہ: عمران، یہ کیـا ہو رہا ہے اور یہ کیـا بول رہا ہے؟ یہ مذاق کر رہے ہیں نا!
عمران: نہیں یہ سچ کہہ رہا ہے اور مذاق نہیں کر رہا۔ تم بھی اب شرافت سے مان جاؤ اور انجوائے کرو بے بی۔
ثانیہ: تمھیں شرم نہیں آتی اس طرح اپنی بہن کو دوسرے لوگوں کے بیچ مـیں بے عزت کر رہے ہو۔
عمران: کیـا بے عزتی یـار! ارے یـار تو لڑکی ہے۔۔۔ تیری چوت مـیں ایک لنڈ جائے یـا دس کیـا فرق پڑتا ہے۔۔۔ ویسے ہم سب دوست مل بانٹ کے کھاتے ہیں۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے زبردستی مـیری چادر کھینچ لی اور مجھے سب کے بیچ مـیں ننگا کر دیـا اور سلیم کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے کہنے لگا کہ ثانیہ! تو تو مـیری کزن ہے۔۔۔ ہم لوگوں نے تو اس کے سامنے بلکہ اس کے ساتھ مل کر اس کی سگی بہن کو اسی کمرے مـیں پورا پورا دن چودا ہے اور تو اور رضوان نے تو تیری چوت کے لئے پورے ایک ہفتے سلیمہ آنٹی کو چدوایـا ہے مجھ سے۔
یہ سن کے مجھے ایک دم شاک سا لگا کہ کوئی بھائی اپنی سگی بہن کو خود بھی چودے اور دوستوں سے بھی چدوائے یـا اور دوسری بات سن کر تو مـیں بیہوش سی ہو گئی کہ رضوان نے اپنی سگی ماں سلیمہ آنٹی کو ہی چدوا ڈالا۔ ابھی مـیں سوچ ہی رہی تھی کہ آواز آئی۔۔۔
رضوان: ارے اپنی بھی تو بتا کہ تیری سگی بہن کو بھی تو یہاں پر ہی چودا ہے ہم سب نے اور سن ثانیہ، اپنی سگی بہن کی سیل بھی عمران نے خود ہی توڑی تھی اور آج بھی جب کہ اس کی شادی ہو چلی ہے، جب بھی وہ گھر آتی ہے ہم سب سے ایک بار تو ضرور چدتی ہے۔
عمران: تجھے ہم لوگ ہر طرح سے مزا دیں گے اور تجھے بھی اگری خاص پوزیشن مـیں چدوانا ہو تو بول ہم لوگ ویسے بھی کریں گے۔
یہ کہہ کے اس نے مجھے پلنگ پر دھکیل دیـا اور اپنے دوستوں سے کہا کہ جسے جو کرنا ہے کرو۔۔۔
پھر کیـا تھا۔۔۔ اس کے سب دوست مجھ پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے کوئی دس بارہ کتے کتیـاکے پیچھے پڑتے ہیں۔۔۔ کوئی مـیرے بوبس پکڑ کے کھینچ رہا تھا تو کوئی مـیری گانڈ دبا رہا تھا اور کوئی اس مـیں انگلی ڈال رہا تھا اور ایک آگے بیٹھ کے مـیری چوت سونگھ رہا تھا۔
ثانیہ: عمران، مجھے بچاؤ۔
عمران: مـیں بھی چودوں گا مگر سب کے بعد۔۔۔۔ تجھے چوت چٹوانے مـیں اور چودنے مـیں بہت مزا آتا ہے نا! آج تجھے ہر طرح سے مزا دیں گے اگر تم ہمارا ساتھ دو گے تو تم کو بھی مزا ملے گا نہیں تو کتیـا کی طرح رہوگی اور جس کو جیسا چاہیے ویسا چودیں گے۔
تب تک سلیم نے اپنا لنڈ مـیرے منہ کے سامنے کر کے چاٹنے کو کہا۔ مـیں نے کہا کہ مـیں نے کبھیی کا لنڈ منہ مـیں نہیں لیـا تو سب ہنسنے لگے اور بولے کہ منہ مـیں لے رنڈی سالی مـیں نے تھوڑا سا نا نا کیـا تو سلیم کو اتنا غصہ آیـا کہ اس نے ایک زوردار تھپڑ مـیرے گالوں پر ٹکا دیـا ۔۔۔ مـیں اس کےتھپڑ کی تکلیف سے ایک طرف گری تو اس نے زور سے ایک لات مـیری گانڈ پر ماری اور مـیں پیچھے پلٹ کر کمر کے بل گر پڑی، جیسے ہی مـیں گری اس نے رضوان سے کہا، سالی کا منہ پکڑ کے رکھ، مـیں اس سالی کو اپنا گرم گرم پیشاب پلاتا ہوں۔
رضوان اور اس کے دو دوست جلدی سے آگے آئے۔ ایک نے مـیرے دونوں ہاتھ پکڑے اور دوسرے نے مـیری دونوں ٹانگیں اور رضوان نے مـیرے بال پکڑ کے مـیرا منہ کھولا، جیسے ہی مـیرا منہ کھلا سلیم مـیرے منہ پر پیشاب کرنے لگا، اس کی دھار سیدھی مـیرے منہ کے اندر پڑنے لگی، مـیں جتنا ہلنے کی کوشش کرتے سب لوگ اتنا ہی ہنستے۔۔۔ پیشاب مـیرے ہلنے کی وجہ سے مـیری آنکھوں، کانوں اور ناک مـیں بھی گیـا۔۔۔ مـیرا پورا گلا پیشاب کی وجہ سے جلنے لگا۔ ابھی اس کا پیشاب ختم ہی ہوا تھا کہ عمران بھی اپنا لنڈ نکال کے مـیرے سامنے کھڑا ہو گیـا۔
رضوان: ابے ایگریمنٹ کے حساب سے جب تک ہم لوگ تیری بہن کو نہ چود لیں تب تک تو کچھ نہیں کر سکتا۔
عمران: یـار مـیں کچھ نہیں کر رہا، صرف اس کو اپنا پیشاب پلا رہا ہوں۔
اس وقت مجھ کو مـیری غلطی کا احساس ہوا کہ مـیں بری طرح پھنس چکی ہوں۔ عمران مـیرے اوپر خوب لنڈ ہلا ہلا کے پیشاب کے اس کے پیشاب کرنے کے بعد ایک لڑکا بولنے لگا کہ یہ مادرچود سالی تو ایک دم گندی ہو گئی ہے اس کو نہلا کے عطر لگا کے ایک رنڈی کی طرح تیـار کرو پھر مزا آئے گا۔ پھر رضوان نے مجھے گود مـیں اٹھایـا اور زبردستی مجھ کو باتھ روم مـیں لے گیـا اور مجھے موتنے کے لئے کہا۔ پہلی بار مـیں لڑکے لوگ کے سامنے موت رہی تھی اور سب لوگ غور رہے تھے۔ سب سے زیـادہ مزا تو سلیم لے رہا تھا۔ مـیں موت کے جیسے کھڑی ہونے گئی رضوان کہیں سے ایک پائپ لے آیـا۔ ایک لڑکے نے پائپ نول مـیں لگا کے مجھ پر پانی مارنے لگا۔ ٣ سے ٤ منٹ پانی مارنے کے بعد رضوان نے پائپ زبردستی مـیری گانڈ مـیں ڈال کے پانی چلو کر دیـا مـیری گانڈ مـیں پانی جانے کی وجہ سے گدگدی بھی ہو ر ہی تھی اور درد بھی ہو ر ہ تھا۔
رضوان: یہ رنڈی تو اندر سے بھی گندی ہو گئی ہوگی اس لئے اس کو اندر سے بھی صاف کر دیتے ہیں۔
مـیں سمجھ نہیں سکی وہ کیـا بول رہا ہے اس کے جو دوست نے مجھے پکڑا تھا زبردستی جانور کی طرح سے چار ہاتھ پاؤں پر مجھے بٹھا دیـا مـیں اٹھنے لگی تو اور دوسرے سب لڑکے زبردستے مجھے پکڑ کے ایک کتیـا کی طرح کردے۔ رضوان نے اب پیچھے سے پائپ مـیرے چوت مـیں ڈال کے نال ایک دم زور سے چلو کر دیـا نول چلو ہوتے ہی مجھے یکدم زور سے پائیں ہونے لگا مـیں سب سے ہاتھ چودا کے بھاگنے کوشش کرنے لگے لیکن وہ ٦ لڑکے اور مـیں اکیلی مـیں نہیں چودا سکی پانی مـیرے چوت مـیں بھرنے لگا جس مـیرا پیٹ پھولنے لگا مـیں زور زور سے چللانے لگے مجھے جانے دو مجھے معاف کر دو مجھے جانے دو پلیز سب لڑکے ہسنے لگے اور سب سے زیـادہ عمران حس رہا تھا
رضوان: اتنے مسکل سے ہاتھ یے ہے اور تجھے جانے دے۔ آج تو تجھے ہم سب سے جی بھر کے چودنا ہے اسیسلئے تو تجھے اتنے اچّھی طرح سے صاف کر رہے ہیں۔
ثانیہ: تملوگ جب کہو گے جیسا کہو گے مـیں کرونگی پر ابھی یہ پائپ نکل لو۔
تب سلیم نے پائپ نکل لیـا اور جب تک تو مـیرا پیٹ مـیں پانی جانے کی وجہ سے پھول گیـا تھا تو ایک لڑکا کہنے لگا کہ دیکھ عمران ابھی تو تیری بہن کو کوئی چودا بھی نہیں یہ تو ابھی سے پیٹ سے ہو گئی ہے۔ جب مجھے سب نے پکڑ کے کھڑا کیـا تو مـیرے پیٹ کا پانی مـیری چوت سے ایسے نکلنے لگا جیسے مـیں کھدی ہو کے موت رہی ہوں۔ سب یہ دیکھ دیکھ کے مزا لے رہے تھے جب مـیرے پیٹ کا پورا پانی نکل گیـا تو وہ سب اٹھا کر مجھے بدروب مـیں لے گئے اور مـیرے بدن کو طویل سے صف کرنے کے بعد مـیرے بوبس کے بیچ مـیں مـیرے چوت کے بال پر اور مـیری گانڈ پر اتر لگایـا اور بستر مـیں بھی اتر لگایـا اس کے بعد عمران واسلنے کی بوتل لیـا۔ سب نے اپنے اپنے لنڈ پر واسلنے لگے اور مـیری چوت اور گانڈ مـیں بھی ان لوگ نے واسلنے لگیی۔ واسلنے لگانے کے بعد سب لوگ نے ایک ساتھ مـیرے اپر چودنے کے لئے آگے۔ رضوان بسٹر پر لیٹ گیـا اور سلیم کو کہا کہ اس کو مـیرے لنڈ پر بٹھا بہت دیر سے سالی کو ننگی دیکھ کر ایک دم بچیں ہو گیـا ہے۔ سب لدکو نے مجھے پکڑ کے اٹھایـا اور مجھے اس کے لنڈ پر بٹھا دیـا۔ اس کا لنڈ مـیری گانڈ مـیں جانے لگا مـیں نے اس دن تک کبھی گانڈ نہیں مریے تھی۔
ثانیہ: مـیری فاٹ گئی۔ نککالو اس کو مـیری چوت مـیں ڈالڈو مـیری گانڈ مت مارو۔ اااااہ ااااااہ ااااہ ہوووو ہوووو اااااہ
یہ سن کے سلیم کو بھی جوش یـا اس نے مجھے رضوان کے اپر ہی لیتا کے مـیری چوت مـیں اپنا لنڈ ڈال کے ہلانے لگا مـیں درد سے چلّ رہی تھی اااااہ ااااااہ ااااہ ہوووو ہوووو اااااہ یہ دیکھ کے ایک لڑکا نے کہا کہ سالی کو نپل دیتا ہوں۔ اس نے اپنا لنڈ مـیرے منہ مـیں ڈال کے ہلانے لگا جیسے کی مـیری چوت مـیں ڈال رہا ہو۔ مـیرے صاب ہولے لنڈ سے بھرے ہوئے تھے بکے دو نو مـیرے بدن کو مثل رہے تھے، مـیرے بوبس کو کھنچ رہے تھے، اسپے نیل سے پانچ کر رہے تھے۔ اچچانک ایک نے مـیری ناک اپنے ہاتھ سے پکڑ کے بند کردے مـیرے منہ مـیں لنڈ ہونے کی وجہ سے مـیں سانس نہیں لے پا رہے تھی ٢ منٹ کو تو لگا کہ مـیں مر جاؤںلیکن مجھے تداپتے ہوئے دیکھ کے اس نے ہنستے ہوئے مـیری ناک چود دیـا اور اس کے بعد جس کو جس طرح سے سمجھ مـیں آیـا سب نے ٢، ٢ یـا ٣، ٣ بار مجھ کو شام ٦ بجے تک چودا۔ پھر رضوان ایک لوکی لے آیـا اور وہ مـیری چوت مـیں ڈال دی۔ مـیں درد سے پاگل ہو گی۔
ثانیہ: نہیں نکل لو اسے۔ اتنا تو چود چکے اب یہ کیـاااا نہیں مت کرو مـیں مر ااااہ مر جوں گی۔ نہیییییی۔
رضوان: ارے تیری چوت کو بھر تو عمران نے ہی بنا دیـا تھا اب ہم اس کو بھوسدہ بنیںگے تاکی تجھے ایک ساتھ ٢٥ لنڈ لینے مـیں بھی تکلف نہ ہو۔
عمران: ارے سری ٹریننگ آج مت دو۔ اور بیگان ڈالو پہلے تم تو سیدھے لوکی پل رہے ہو۔ اب سبکی بہنو مـیں ایک یہی تو ابھی تک ٹتے ہے ٹھوڈی تو رہنے دو۔ بھوسدے کا مزا لینا ہے تو سلیم کی بہن تو ہیں ہی۔
رضوان: تم کہتے ہو تو جانے دیتا ہوں۔ تم تو مـیرے باپ سامان ہو کیونکی مـیری ما کو تم نے سبسے زیـادہ چودا ہے۔ ہ ہ ہ۔ چلو ٨ بج گئے ہے۔ اس کو گھر پہنچانا ہے۔
پھر مجھے ان لڑکے لوگ نے عمران کے ساتھ اس کی ٹاٹا سومو مـیں لے کے اے مجھے کچھ ہوش نہیں تھا کہ کیـا ہو رہا مـیں یکدم سے اتنی چودیے سے تھک گئی تھی۔ گاڑی مـیں بھی مجھے ٹاٹا سومو مـیں پیچھے دونوں سیٹ کے بیچ مـیں بیٹھے تھے مـیرے سامنے والے نے اپنا لنڈ مـیرے منہ محی ڈال کے رکھا تھا اور پیچھے کے ایک لکدے نے مـیری چددی کو اور شلوار کو کھول کے مـیری گانڈ مارنے لگا پورے راستے مـیں بھی مجھےی نہی کا لنڈ منہ مـیں یـا گانڈ مـیں تھا۔ جب گھر آیـا تو اس سے پہلے ہی ان لوگوں گاڑی روک کے مجھے کہا کہ تو آج سے ہماری رکھیل ہے تجھے جب چاہیںگے اور جہاں چاہیںگے تجھے چودنے کے لئے آنا ہوگا۔ اور مجھے ان لوگوں نے وہیں اتر دیـا اور عمران کو گھر اترنے لے گئے۔ مـیں بدی مشکل سے چال پا ر ہی تھی، جاب مـیں گھر پہنچی تو وہ لوگ گھر کے باہر گاڑی مـیں بیٹھے مجھے تھوڑا لنگدا کے چلتے دیکھ کے مسکورانے لگے۔
اس دن کے بعد جب جی مـیں آتا ان مـیں سے کوئی بھی لڑکا آکے مجھے کبھی کہاں لے جاکے چودتا کبھی کہاں۔ سبسے زیـادہ مجھے رضوان نے چودا کیونکی اس کے گھر دوپہر مـیں صرف سلیمہ آنٹی اور رضوان ہوتے تھے تب عمران مجھے لے جاتا تھا اور عمران رضوان کی ما چودتا تھا اور رضوان مـیری گانڈ مارتا تھا۔ اس کو گانڈ مارنے کا زیـادہ شہک تھا۔ اور جب رضوان گھر پر نہیں ہوتا تب عمران مجھے اور سلیمہ آنٹی کو ایک ہی بیڈ پر ایک ہی ساتھ چودتا تھا۔ سلیمہ آنٹی کا گڈریـا بدن تو وہ کتو کی طرح نوچتا ہی تھا اور مجھے تو خود سلیمہ آنٹی ہی ننگا کرتی تھی اور کہتی تھی یہی تو دن ہے چودنے خانے کے۔ تمہارے ابھی جتنا مزا کر سکتی ہے کر لے۔
کبھی کبھی تو سلیمہ آنٹی مـیری چوت مـیں بیگان اور لوکی بھی ڈال دیتی تھی اور مجھے جتنا درد ہوتا اتنا ہی وہ مزا لیتی تھی۔ کہتی تھی تجھے ایسا تیّر کر دوںکہ تیرے شوہر کا لنڈ اگر گڑھے کی طرح موٹا ہو تو بھی تو ایک جھٹکے مـیں ہی پورا اندر لیلے۔
ایک دن ان مـیں سے ایک لادکا مجھے اپنے ساتھ لے گیـا اور کہا کہ اس کا کوئی کزن دلھ سے آیـا ہے اس کو اس کی بہن کو چودنا ہے اسلئے کہا کہ مـیں اس کے کزن کے ساتھ جی بھر مزا دوں اور وہ گھر پر اس کی کزن بہن کو چودے گا۔ مـیں اس لڑکے کے ساتھ جب چودا کے رکشا مـیں آ رہی تھی تو مجھے عمران کے بدی بھائی نے دیکھ لیـا اور گھر پر اس نے مجھے مارا۔ جب اس نے مارا تو مـیں نے سب بتا دیـا کہ طرح سے اس کے بھائی عمران نے مجھے چودا اور اس کے دوستو سے بھی چوودہ کے ان کی رکھیل بنایـا، تو اس نے کہا مدرچود تیری چوت مـیں مـیرا لنڈ۔ اتنے دن سے تو یہاں حرام کا ہممارے یہاں کھا رہی ہیں وہ کچھ نہیں ذرا اس نے چود دیـا تو اس کو بدنام کرنے لگے۔ اور ایک ہفتے کے بعد اس نے کہا کہ مجھے اس کی پروموشن کے لئے اس کے باس سے چدوانا ہوگا۔
جب مـیں اس کے باس کے پاس جا رہی تو مـیں نے سوچا کہ مـیری چوت کو یہ سب لوگ مفت کا چاندن گھس مـیرے نندن کی طرح استمعال کر ر ہے ہیں کیوں نہ مـیں اپنی چوت کی کمات صاب سے لو یہ سوچ کر مـیں نے سونو کے باس سے چودتے مـیں کہا کہ اگر اس کو اس کیی پارٹی کو بھی خوش کرنا ہوگا تو مـیں کرونگی بس مجھ کو اس چودیے کی کمات دینی ہوگئی۔ اس کا باس مجھ جیسی خوب صورت لڑکی دیکھ کر خوش ہوا اور اس کیی پارٹی کے لئے اس نے مجھے ہی چدیے کا کنٹریکٹ دینے لگا اور پیچھلے ١٩ مونٹھ مـیں نے اس نے اتنا پیسا کمایـا کہ گرگاؤں مـیں ایک فلیٹ لے لیـا ہے۔ تم نے مجھے جس آدمـی کے ساتھ دیکھا تھا وہ بھی مـیرا کلائنٹ ہے۔ یہ سن ایک دم عجیب لگا کہ اس نے اپنی چوت کی وجہ سے ایک فلیٹ بھی خرید لیـا ہے۔
اس کی سٹوری سننے کے بعد مـیرا لنڈ کھڑا ہوگیـا اور مـیں اس کے سامنے ہی نکال کے مٹھ مارنے لگا تو وہ اٹھ کے چلی گئی۔ مـیں اس کو چودنا چاہتا تھا لیکن مجھے سمجھ مـیں نہیں آ رہا تھا کہ اس کو کیسے کہوں کہ مـیں بھی اسے چودنا چاہتا ہوں۔ مجھے مٹھ مارتے ہوئے ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ثانیہ باجی دوبارہ کمرے مـیں آئیں اور مجھے اپنے ساتھ چپکا کر مجھے کہا کہ بھائی، تمہیں مـیرے ہوتے ہوئے ہاتھ سے مٹھ مارنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ یہ کہہ کر وہ مـیرا لوڑا چوسنے لگیں۔۔۔

. اردو کہانی آنٹی . اردو کہانی آنٹی




[ننگی اردو کہانیـاں: مـیری بہنا کی درد بھری کہانی اردو کہانی آنٹی]

نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Tue, 10 Jul 2018 04:32:00 +0000